حسبِ وعدہ پرہیزِ جلالی جمالی پہ پوسٹ حاضرِ خدمت ہے۔ اسکو سمجھنا چنداں مشکل امر نہیں۔ صاحبِ علم اور صاحبِ عقل یقینا اس مضمون کی داد دیں گے۔
ہر وہ چیز جس کا ماخذ روح یا بو ہے ممنوع ہے
یہی پرہیز جلالی جمالی ہے اسی ایک جملہ میں قانون موجود ہے، اردو کی کتبِ عملیات میں پرہیزِ جلالی اور جمالی دو علیحدہ علیحدہ چیز سے موسوم ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے۔ روحانیات یا سفلیات میں جو پرہیز مطلوب ہیں وہ صومِ روحانی کہلاتے ہیں یعنی سپرچوئل فاسٹنگ اور یہ ایک ہی طرح سے ہیں جلالی یا جمالی علیحدہ کچھ نہیں ہوتے ۔ اور یہ چیز قبل از اسلام سے یہود اور عیسائی عاملین کام میں لاتے تھے اور یہ انجیل سے ثابت شدہ ہے [قبل از اسلام روزہ کی یہی کیفیت تھی تفصیل کیلیئے بائبل یا گوگل پہ سپرچوئل فاسٹنگ کی معلومات لی جا سکتی ہیں]۔ اب بھی عیسائی ہی سب سے زیادہ صومِ روحانی سے کام لیتے ہیں۔ اگر آپ عملیات کی کتب معتبرہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ پرہیز جلالی یا پرہیز جمالی دو علیحدہ علیحدہ چیزیں بالکل ہی نہیں۔ اردو کتب میں نقال اور جعلی عاملین نے اس قاعدہ کو بھی غلط اور بے ہودہ انداز میں پیش کیا۔ ایک طالب علم کو دو مختلف پرہیز بتائے اور اصل حقائق سے محروم ہی رکھا۔ حالاںکہ عملیات میں جو پرہیز یا صوم مطلوب ہے وہ اسی ایک جملہ میں موجود ہے۔ پرہیز جمالی بالکل ناقص ہے اسکا کرنا یا نا کرنا برابر ہے کیوںکہ اس پہ عمل کرنے سے اس متذکرہ جملہ کی شرائط پوری نہیں ہوتیں اور عمل میں ہمیشہ ہی ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ پرہیز جلالی میں وہ تمام اشیا بیان کر دی گئیں جو اس جملہ کی شرائط کو پورہ کرتی ہیں۔ اس سے کہیں بہتر تھا کہ مختلف چیزوں کا نام رٹوانے کی بجائے ایک اصولی کلیہ بیان کر دیا جاتا۔ اور یہ کلیہ ہر کتاب سحر میں مزکور ہے لیکن نقال اردو مترجمین نے اس میں تحریف کر کے مخلوقِ خدا کو گمراہ کیا۔ میں نے مترجمین کا لفظ اسلئے لکھا کہ جن عملیات کا یہ خود کو عامل بتاتے ہیں یہ تمام عملیات انہوں نے عرب اور ایران کی کتب سے نقل کر کے لکھے ہیں، اور اگر آپ مستند کتب کا مطالعہ کریں تو یہ حقائق آپ کو وہاں مل جایئں گے۔
روح کے اخراج سے مراد اینمل پروڈکٹس ہیں۔ یعنی وہ تمام اشیاء جن کا ماخذ حیوانات ہیں کہ جانوروں میں روحِ حیوانی موجود ہے، اور بو سے مراد بدبودار اشیاء ہیں۔
اب یہاں علویات اور سفلیات کا بھی فرق سمجھ لیں، سفلی عمل میں آپ جانور کی سواری بھی نہیں کر سکتے اور جانور کو ذبح بھی نہیں کر سکتے، لیکن اسلامی عملیات میں آپ یہ دونوں کام کر سکتے ہیں۔ سفلی عملیات میں شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء ممنوع نہیں لیکن اسلامی عملیات میں ممنوع ہیں۔ یعنی اگر سفلی عملیات اور سحر کرنا ہو تو یہی جملہ کسوٹی ہے اور جب قرآنی عملیات کرنا ہوں تو اس جملہ کے ساتھ شریعت کے حلال حرام کا بھی خیال رکھا جائے گا۔
مثال کے طور پہ صوم روحانی کی رو سے عملیات میں شراب جائز ہے لیکن علوی عملیات میں ممنوع ہو گی حالاںکہ شراب میں بھی بو موجود ہے لیکن سفلیات میں ہر غلط کام اجابت کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ سفلیات میں صومِ روحانی میں پاکی نہیں کر سکتے لیکن قرآنی عملیات میں ضرور کریں۔ نہ کرنے کی صورت میں کامیابی کی توقع عبث ہے، حالاںکہ کاش البرنی نے پاکی سے بھی منع کیا لیکن یہ شرط صرف سفلیات کیلیئے ہے علویات کیلیے بالکل نہیں۔
اب اگر اس جملہ کی تشریح کی جائے تو
گوشت، انڈہ، مچھلی، دیسی گھی، لسی، دہی، دودھ، لہسن، پیاز وغیرہ وغیرہ ہی سے پرہیز مقصود ہے۔
اور اگر لہسن یا پیاز کو اچھی طرح پکا لیا جائے تو کھایا جا سکتا ہے۔
اور یہ جو اردو کتب میں لکھا ہے کہ پھل استعمال نہ کیے جائیں کیوںکہ پھلوں پہ مکھیاں بیٹھتی ہیں بالکل غلط ہے۔ ہر طرح کے پھلوں کا استعمال بالکل درست ہے۔
اب میرا ذاتی طریقہ اور تجربہ یہ ہے کہ میں قرآنی عمل میں شرعی روزہ سے کام لیتا ہوں اور سب کچھ کھانا جائز مانتا ہوں کیوںکہ اس ریاضت کا بنیادی مقصد ضبطِ نفس ہے، اور
ضبطِ نفس کیلیے شرعی روزہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں
اسلیے میرے نزدیک شرعی روزہ یہ جملہ تمام مقصد پورہ کر دیتا ہے اور قربِ الٰہی کی وجہ ہونے سے قرآنی عمل جلد اجابت ظاہر کرتا ہے ۔ دیگر بھائی اگر پرہیز کرنا چاہیں تو صوم روحانی کر سکتے ہیں۔ اور اگر بہت زیادہ اثر مطلوب ہو تو شرعی روزہ اور روحانی روزہ دونوں سے کام لیا جائے یعنی صوم روحانی اور صومِ شرعی دونوں کر لیے جائیں یعنی سحر و افطار میں صرف وہ اشیاء کھائیں جو صومِ روحانی کی رو سے کھانا جائیز ہوں۔
ہر وہ چیز جس کا ماخذ روح یا بو ہے ممنوع ہے
یہی پرہیز جلالی جمالی ہے اسی ایک جملہ میں قانون موجود ہے، اردو کی کتبِ عملیات میں پرہیزِ جلالی اور جمالی دو علیحدہ علیحدہ چیز سے موسوم ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے۔ روحانیات یا سفلیات میں جو پرہیز مطلوب ہیں وہ صومِ روحانی کہلاتے ہیں یعنی سپرچوئل فاسٹنگ اور یہ ایک ہی طرح سے ہیں جلالی یا جمالی علیحدہ کچھ نہیں ہوتے ۔ اور یہ چیز قبل از اسلام سے یہود اور عیسائی عاملین کام میں لاتے تھے اور یہ انجیل سے ثابت شدہ ہے [قبل از اسلام روزہ کی یہی کیفیت تھی تفصیل کیلیئے بائبل یا گوگل پہ سپرچوئل فاسٹنگ کی معلومات لی جا سکتی ہیں]۔ اب بھی عیسائی ہی سب سے زیادہ صومِ روحانی سے کام لیتے ہیں۔ اگر آپ عملیات کی کتب معتبرہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ پرہیز جلالی یا پرہیز جمالی دو علیحدہ علیحدہ چیزیں بالکل ہی نہیں۔ اردو کتب میں نقال اور جعلی عاملین نے اس قاعدہ کو بھی غلط اور بے ہودہ انداز میں پیش کیا۔ ایک طالب علم کو دو مختلف پرہیز بتائے اور اصل حقائق سے محروم ہی رکھا۔ حالاںکہ عملیات میں جو پرہیز یا صوم مطلوب ہے وہ اسی ایک جملہ میں موجود ہے۔ پرہیز جمالی بالکل ناقص ہے اسکا کرنا یا نا کرنا برابر ہے کیوںکہ اس پہ عمل کرنے سے اس متذکرہ جملہ کی شرائط پوری نہیں ہوتیں اور عمل میں ہمیشہ ہی ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ پرہیز جلالی میں وہ تمام اشیا بیان کر دی گئیں جو اس جملہ کی شرائط کو پورہ کرتی ہیں۔ اس سے کہیں بہتر تھا کہ مختلف چیزوں کا نام رٹوانے کی بجائے ایک اصولی کلیہ بیان کر دیا جاتا۔ اور یہ کلیہ ہر کتاب سحر میں مزکور ہے لیکن نقال اردو مترجمین نے اس میں تحریف کر کے مخلوقِ خدا کو گمراہ کیا۔ میں نے مترجمین کا لفظ اسلئے لکھا کہ جن عملیات کا یہ خود کو عامل بتاتے ہیں یہ تمام عملیات انہوں نے عرب اور ایران کی کتب سے نقل کر کے لکھے ہیں، اور اگر آپ مستند کتب کا مطالعہ کریں تو یہ حقائق آپ کو وہاں مل جایئں گے۔
روح کے اخراج سے مراد اینمل پروڈکٹس ہیں۔ یعنی وہ تمام اشیاء جن کا ماخذ حیوانات ہیں کہ جانوروں میں روحِ حیوانی موجود ہے، اور بو سے مراد بدبودار اشیاء ہیں۔
اب یہاں علویات اور سفلیات کا بھی فرق سمجھ لیں، سفلی عمل میں آپ جانور کی سواری بھی نہیں کر سکتے اور جانور کو ذبح بھی نہیں کر سکتے، لیکن اسلامی عملیات میں آپ یہ دونوں کام کر سکتے ہیں۔ سفلی عملیات میں شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء ممنوع نہیں لیکن اسلامی عملیات میں ممنوع ہیں۔ یعنی اگر سفلی عملیات اور سحر کرنا ہو تو یہی جملہ کسوٹی ہے اور جب قرآنی عملیات کرنا ہوں تو اس جملہ کے ساتھ شریعت کے حلال حرام کا بھی خیال رکھا جائے گا۔
مثال کے طور پہ صوم روحانی کی رو سے عملیات میں شراب جائز ہے لیکن علوی عملیات میں ممنوع ہو گی حالاںکہ شراب میں بھی بو موجود ہے لیکن سفلیات میں ہر غلط کام اجابت کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ سفلیات میں صومِ روحانی میں پاکی نہیں کر سکتے لیکن قرآنی عملیات میں ضرور کریں۔ نہ کرنے کی صورت میں کامیابی کی توقع عبث ہے، حالاںکہ کاش البرنی نے پاکی سے بھی منع کیا لیکن یہ شرط صرف سفلیات کیلیئے ہے علویات کیلیے بالکل نہیں۔
اب اگر اس جملہ کی تشریح کی جائے تو
گوشت، انڈہ، مچھلی، دیسی گھی، لسی، دہی، دودھ، لہسن، پیاز وغیرہ وغیرہ ہی سے پرہیز مقصود ہے۔
اور اگر لہسن یا پیاز کو اچھی طرح پکا لیا جائے تو کھایا جا سکتا ہے۔
اور یہ جو اردو کتب میں لکھا ہے کہ پھل استعمال نہ کیے جائیں کیوںکہ پھلوں پہ مکھیاں بیٹھتی ہیں بالکل غلط ہے۔ ہر طرح کے پھلوں کا استعمال بالکل درست ہے۔
اب میرا ذاتی طریقہ اور تجربہ یہ ہے کہ میں قرآنی عمل میں شرعی روزہ سے کام لیتا ہوں اور سب کچھ کھانا جائز مانتا ہوں کیوںکہ اس ریاضت کا بنیادی مقصد ضبطِ نفس ہے، اور
ضبطِ نفس کیلیے شرعی روزہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں